10 جولائی، 2015، 12:18 PM
News ID: 2900017
T T
0 Persons
ایرانی صدر کا شنگھائي تعاون تنظيم اور برکس کے سربراہي اجلاس سے خطاب

تہران - ارنا - صدر مملکت 'حسن روحاني' نے روس کے شہر 'اوفا' ميں 'شنگھائي تعاون تنظيم' اور 'برکس' کے سربراہي اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامي جمہوريہ ايران کو ايشيا اور يورپ کو ملانے کے حوالے سے اسٹريٹجيک حيثيت کا مالک قرار فیتے ہوئے کہا ہے کہ ايران ان تنظيموں کے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادي تعلقات بڑھانے ميں گہري دلچسپي رکھتا ہے.

صدارتي ويب سائيٹ كے مطابق؛ حجت الاسلام و المسلمين حسن روحاني نے گزشتہ روز شنگھائي اور بركس سربراہي اجلاس ميں مزيد كہا كہ اس وقت دنيا كي كل آبادي كا نصف حصہ شنگھائي تعاون تنظيم كے ركن ممالك تشكيل ديتے ہيں جو سب سے زيادہ توانائي توليد اور استعمال كرنے كےباعث اہم اقتصادي حيثيت كے حامل ہيں.



صدر روحاني نے كہا كہ علم و ٹيكنالوجي كا فروغ ملكوں كي معيشت پر اثرانداز ہوتا ہے لہذا علم و ٹيكنالوجي كے شعبہ ميں شنگھائي تعاون تنظيم كے ركن ممالك كے تعاون سے ان ممالك كي معيشت مزيد مستحكم ہو سكتي ہے.



صدر مملكت نے كہا كہ اس وقت آٹھ كروڑ آبادي پر مشتمل اسلامي جمہوريہ ايران خطے ميں ايك طاقتور ملك كے طور پر ابھر رہا ہے جو تيل، گيس سميت ہر طرح كے قدرتي ذخاير سے مالامال ہے اور اب ہماري كوشش يہ ہے كہ دنيا كے ديگر ملكوں كے ساتھ بھي اقتصادي تعاون بڑھايا جائے, جبكہ محلِ وقوع كے حوالے سے بھي ايران كي اہميت كسي سے ڈھكي چھپي نہيں، كيونكہ ايران، ايشيا اور يورپ كو آپس ميں ملانے كے ليے پُل كي حيثيت ركھتا ہے.



صدر مملكت نے كہا كہ دباؤ اور پابنديوں كا دور اب ختم ہو چكا ہے، وہ ممالك جو اس سے پہلے تسلط پسندانہ پاليسياں جاري ركھنے كے خواہاں تھے آج آسٹريا كے دارالحكومت ويانا ميں اكھٹے ہوكر مذاكرات اور مفاہمت كے ذريعہ مسائل كا حل ڈھونڈھ رہے ہيں.



انہوں نے كہا كہ ايٹمي مذاكرات حساس مرحلے ميں داخل ہوئے ہيں اور ايران نے اپني طاقت سے ثابت كرديا ہے كہ دباؤ اور پابنديوں سے ايران كے علمي پيش رفت كا راستہ نہيں روكا جا سكتا، اور انشاء اللہ ايٹمي سمجھوتے كے انعقاد كے بعد اسلامي جمہوريہ ايران نئے اقتصادي طاقتوں كے ساتھ مل كر معاشي پيش رفت اور خطے ميں و امن و استحكام كا باعث بنے گا.



انہوں نے كہا كہ اس وقت دہشت گردي خطے كا سب سے اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے ميں تمام ملكوں كے وسيع تعاون كي ضرورت ہے، ہميں چاہيے كہ دہشت گردوں كي چنگل سے ان محروم علاقوں كو نجات دلوائيں جو دہشت گردي كي آگ ميں جھلس رہے ہيں، ليكن افسوس كي بات يہ ہے كہ اس مسئلے ميں علاقائي ممالك خاموش تماشائي بنے ہوئے ہيں اور وہ اس مسئلے ميں كسي قسم كا تعاون نہيں كرتے.



انہوں نے كہا كہ ہم نے گذشتہ سال اقوام متحدہ كے اجلاس ميں انتہاپسندي كے خلاف قرارداد منظوري كروائي تھي اور دوسرے ملكوں سے بھي دہشت گردي كے خلاف مہم ميں ساتھ دينے كي اپيل كي تھي، تاہم اتنا عرصہ گذرنے كے باوجود تعاون كے كچھ اثرات دكھائي نہيں دے رہے.



274